تحریر : خدا امان
روزے کے باطنی فوائد :
عقل بشر ، عقل برتر یا عقل کل کے فلسفہ احکام کو بیان کرنے سے عاجز ہے ۔ جب یہ واضح ہوجائے کہ عقل کمتر یعنی عقل بشر فلسفہ و راز ارادہ قدرت (کہ عقل کل ہے )کو درک نہیں کرسکتا تو اس اصل کے مطابق فلسفہ روزہ کے باب میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ اصلی روزہ کو بھی عقل ناقص انسان نہیں جان سکتا ۔ لیکن یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ خدای مہربان روزہ کو مثبت اثرات اور بے شمار فوائد کو مدنظر رکھ کر اپنے بندوں پر واجب کیا ہے ۔ ذیل میں بعض فوائد باطنی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ۔
۱۔ تقویت تقوی :
قرآن کریم کے ۱۰۵ موارد میں خداوند کریم نے لوگوں کو تقوی اختیار کرنے کی تاکید کی ہے اور فرمایا ہے کہ اعمال بھی صرف اس انسان کے قابل قبول ہیں جس نے تقوی اختیار کیا ہے مثلا قرآن کے سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۲۷ میں ارشاد فرمایا : "انما یتقبل اللہ من المتقین " ۔ یعنی خدا صرف متقین کے اعمال کو قبول کرتا ہے اور اسی طرح معیار برتری انسان کو تقوی قرار دیا ہے اور فرمایا ہے : " ان اکرمکم عند اللہ اتقکم " ۔ ترجمہ : تم میں سے بہترین انسان وہ ہے خدا کے پاس جو متقی ہے ۔ عوامل تقویت تقوی میں سے ایک اہم عامل روزہ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے : " یا ایھاالذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون " ۔ ترجمہ : اے ایمان والو ؛ تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم پرہیزگار (متقی )بن جاو ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : اگر تم شادی نہیں کرسکتے ہو تو روزہ رکھو کیونکہ یہ شہوت کے غلبہ کو کم کرتا ہے اور آپ کے تقوی درونی کی تقویت کا سبب ہے ۔ روزہ انسان کے تقوی کا سبب ہے اس کا ایک راز یہ بھی ہے کہ انسان کے اندر خدا گرایی اور مسائل عرفانی و معنوی پیدا کرتا ہے ۔
۲۔ تقویت صبر و پایداری :
قرآن ارشاد فرماتا ہے : " یا ایھا الذین آمنوا استعینوا باالصبر و الصلوۃ " ۔ بعض مفسروں کی نظر میں جس کی قرآن دعوت دے رہا ہے روزہ ہے کیونکہ فلسفہ روزہ میں سے ایک انسان کے لئے صبر اختیار کرنا ہے ۔ انسان کو روز مرہ زندگی میں مشکلات اور دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے ان سے مقابلہ نماز اور روزہ کے ذریعے ممکن ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : " روزہ اضطراب درونی انسان اور دل کی تاریکیوں کو ختم کرتا ہے " ۔ اور اسی طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : جب بھی انسان کو مشکلات کا سامنا ہو اور دل مغموم ہو تو روزہ کے ذریعے اس کا علاج کریں ۔ جب حضرت نوح نے اپنے اصحاب و یاران کو کشتی میں سوار کرایا (ماہ رجب میں )تو حکم دیا کہ روزہ رکھیں کیونکہ روزہ آدمی کے روح کو تقویت دیتا ہے اور صبر و شکیبایی پیدا کرتا ہے ہر قسم کی اضطراب روحی کو برطرف کرتا ہے ۔
۳۔ تقویت روحیہ آخرت گرایی :
روزہ کے ذریعے انسان دنیاوی زندگی کی نسبت اخروی زندگی کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : روزہ کے وجوب کا راز یہ ہے کہ آدمی بھوک اور پیاس جیسی سختی کو چکھے اور خدا کے حضور خضوع اور خشوع کا مظاہرہ کرے۔خدا کے سامنے انکساری اور عاجزی کرے اور آخرت کی سختی کا احساس کرے اور یاد آخرت کو اپنے دل سے نہ نکالے ۔ اسی طرح فرمایا : لوگ روزہ کے ذریعے گرسنگی بھوک اور پیاس کے مزے کو چکیں اور آخرت کو یاد کریں تاکہ پاداش اور اجر کے مستحق قرار پائیں ۔
۴۔ روزہ اور آرامش روانی :
روزہ کے ذریعے انسان روحی آرامش کو حاصل کرتا ہے نگرانی اور پریشانیوں کا مقابلہ کرتا ہے ۔ پیغمبر اکرم کی یہ روش تھی کہ جب غمگین ہوتے تو نماز پڑھتے اور روزے رکھتے اور انہیں کے ذریعے اپنے غموں کا علاج کرتے ۔ " کان النبی حزنہ امر استعان باالصوم و الصلوۃ "۔ فخر رازی اپنی تفسیر میں سورہ رعد کی آیت نمبر ۲۸ کے ذیل میں لکھتا ہے : انسان کا قلب دو حالتوں سے خالی نہیں ہوتا ۔ ایک حالت یہ ہے کہ جب انسان مادیات کے دریا میں غرق ہوجاتا ہے تو اضطراب اور پریشانیوں میں مبتلا ہوتا ہے لیکن جب امور ماورایی اور معنویات کے تفکر میں غرق ہوتا ہے تو ایک نفسانی سکون باطنی آرامش و آسایش کا احساس کرتا ہے ۔ اسی لئے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : جب بھی کسی انسان کو ہولناک واقعہ پیش آئے اور فکر در غرق دیتا ہو فورا روزہ رکھے ۔
۵۔ پاک سازی دل اور نور معرفت میں اضافہ :
روزہ انسان کے دل میں لگے زنگ کو زائل کرتا ہے اور باطنی ناپاکی اور آلودگی کو صاف کرنے کا باعث بنتا ہے اور دل میں نور معرفت کو بڑھاتا ہے ۔ پیغمبر اکرم ارشاد فرماتے ہیں : ماہ رمضان کے روزے اور ہر ماہ کے اول ، وسط اور آکر کے روزے دل کے زنگ کو ختم کرتے ہیں ۔ روزہ دل کو گناہوں اور معصیت سے پاک کرتا ہے ، روح کو صفا اور جلا بخشتا ہے ۔ نور معرفت اور تقویت روح کا باعث بنتا ہے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ سالانہ روزہ کیا ہے ؟ فرمایا : ہر ماہ کے اول ، وسط اور آخر میں روزہ رکھنا سال بھر روزہ رکھنے کے مترادف ہے اور فرمایا : یہی روزے انسان کے دل سے اضطراب اور زنگ کو دور کرتا ہے
۶۔ تجلی خلوص :
روزہ بذات خود ایک ایسا امر ہے جو نا آشکار ہے لیکن انسان کے خلوص کا زمینہ ساز ہے تجلی خلوص کے لئے زمینہ فراہم کرتا ہے ۔ انسان حکم خداوند کو انجام دے ، اپنے عمل کو بجا لائے اس کے ظاہر اور باطن کے فوائد خود انسان کو حاصل ہوجائیں گے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں : معیار اور ملاک انسان نیت ہے یعنی عمل مہم ہے جو اخلاص کے ساتھ انجام دیا جائے یہی بہترین تجلی خلوص ہے ۔ جو صرف روزہ کے ذریعے انسان کو حاصل ہوتا ہے ۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں : خداوندا ؛ میں تمہاری عبادت آتش جہنم کے خوف سے یا جنت کی لالچ میں انجام نہیں دیتا بلکہ تمہیں لائق عبادت سمجھ کر تیری عبادت کرتا ہوں ۔
لہذا ہمیں چاہئے کہ روزہ ایک امر خداوند ہے اس امر الہی کو مدنظر رکھ کر خلوص اور پاک نیت کے ساتھ رکھیں تاکہ اس کے ظاہری اور باطنی فوائد خود بخود حاصل ہوجائیں ۔